This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Friday, 17 August 2018

Prime Minister Imran Khan Best Speech in National Assembly | Apni Soch PK



The winds of change have started to blow across the country. The PTI has won the Centre as well as the provinces of Khyber-Pakhtunkhwa and Punjab, besides managing a notable presence in Sindh.



 That Imran Khan is destined to become the Prime Minister of Pakistan is all in the air. While all analyses and assessments pointed to a hung National Assembly, the PTI has gone well past the magical 100-seat mark, good enough to attract independent candidates into its fold to secure simple majority and form the government comfortably — well, without the support of difficult-to-handle allies. That the PML-N and the PPP combined failed to match the PTI’s tally of seats showed that the countrymen overwhelmingly rejected the narrative of ‘Respect for Vote’ and the so-called pro-development policies and voted for pursuing a Naya Pakistan through human resource development.


With Khan now in the saddle, the real test of his capability as a leader has started. Coping with the many serious challenges facing the country — related to economy, energy crisis, internal and border security, civil-military relationship and foreign policy — is no mean feat. A first timer, Khan will have to perform out of his skin to come good on his promises of a Madina-like welfare state, across-the-board accountability, 10 million jobs, widened tax base, depoliticised police, sovereign foreign policy, etc. He has spoken a lot about the out-of-school children; and now is the time to practise what he has been preaching all along his more than 20 years of struggle. Karachi deserves Khan’s particular attention. As promised, he is required to lay the foundation of turning it into a metropolitan city, by making available facilities that a metropolitan city deserves.Khan’s victory is, however, marred by the allegations of rigging — before elections and on the polling day — proving that there is an undeniable link between elections in our country and rigging allegations. That’s where the role of the Election Commission comes under question. We need to learn from neighbouring India where the chief election commissioner has, over the years, become so powerful that serious allegations of rigging in the country have become a thing of past. 

Thursday, 16 August 2018

Imran Khan or Shahbaz Sharif? Pakistan's next Prime Minister will be elected today |Apni Soch PK






اسلام آباد: ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا انتخاب آج عمل میں لایا جائے گا جس کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف میدان میں ہیں۔


قومی اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوگا جس میں ملک کے اگلے وزیراعظم کا انتخاب 


97



اس بار خفیہ رائے شماری کے بجائے ڈویژن کے ذریعے ووٹ دیے جائیں گے، عمران خان کے حامی ایک لابی اور شہباز شریف کے حامی دوسری لابی میں جائیں گے۔
تحریک انصاف کی جانب سے چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔عمل میں لایا جائے گا۔
پیپلز پارٹی کا لاتعلق رہنے کا فیصلہ


بظاہر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے میدان صاف ہوگیا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت تو کرے گی لیکن انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی اور عمران خان اور شہباز شریف میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کا ووٹ نہیں دے گی۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کے الیکشن سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
زرداری صاحب سے گلہ نہیں، ان کی پریشانیوں کا اندازہ ہے، سعد رفیق
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ سے وزیراعظم کا امیدوار بدلنے کا کہا گیا اور اس حوالے سے ن لیگ کو تحفظات سے بھی آگاہ کردیا گیا تھا، جس پر لیگی رہنما سعد رفیق بولے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے شہباز شریف کے نام پر اتفاق کیا اور بعد میں زرداری صاحب کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئی۔
دوسری جانب شہباز شریف کے صاحبزادے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے کہا کہ ہم ہر جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ڈٹ کر اپوزیشن کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی کا ووٹ دیا تھا۔
وزارت عظمیٰ کیلئے قومی اسمبلی میں نمبر گیم
قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناؤ کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اس کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، بی این پی مینگل کے 4، جی ڈی اے کے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے، جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176 بنتی ہے۔
چار آزاد امیدواروں کا جھکاؤ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں کس جماعت کے کتنے اراکین 


ہم خیال جماعتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس 81 نشستیں ہیں جبکہ انہیں متحدہ مجلس عمل کے 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 1 ممبر کی سپورٹ حاصل ہے، اس طرح اپوزیشن کی عددی قوت 97 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 ارکان ہیں تاہم پی پی پی نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم کی نشست کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
342 کے ایوان میں 2 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی، 2 نشستیں ق لیگ اور 1 نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئیں۔
اسی طرح ایک نشست این اے 215 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دیا گیا مگر اب تک ایسا نہ ہوسکا، یوں ایوان 330 ارکان کا ہوگا۔
وزیراعظم کے چناؤ کے روز اگر 330 ممبران موجود ہوتے ہیں تو اس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کی حمیات درکار ہوگی، یعنی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئے گی اور اپوزیشن کے مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔
قائد ایوان کے 2013 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو اُس وقت میاں نواز شریف نے دو تہائی سے زائد یعنی 244 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم نے 42 ووٹ اور جاوید ہاشمی نے 31 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی 339 ووٹوں میں سے 221 ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔